پاکستان کی سر زمین پر لاکھوں سال سے انسان آباد ہے۔ پتھر کے زمانے سے لے کر تہذیب کی ابتداء اور ترقی کے تمام زینے انسان نے اس خطہ ارض پر رہتے ہوئے طے کئے۔ دریائے سندھ کے مشرق میں پھیلے ہوئے وسیع و عریض زرخیز میدانوں میں زمانہ قبل از تاریخ میں ایک عظیم تہذیب نے جنم لیا۔ یہ تہذیب اپنے معاصر سے کسی طور پر بھی کم نہ تھی بلکہ ترقی اور پھیلاو کے اعتبار سے ان سب سے آگے تھی۔ یہ عظیم الشّان تہذیب وادی سندھ کی تہذیب تھی جو آج سے پانچ ہزار سال پہلے خطہ زمین پر ابھری اور صدیوں تک بینظیر رہی۔ اور پھر پردہ گمنامی میں چھپ گئی۔وادی سندھ کی تہذیب کے آثار لاکھوں مربع میل پر پھیلے ہوئے ہیں۔ ان میں سے سب سے پہلے دریافت ہونے والے آثار ہڑپہ سے ملے۔ اس لئے اس تہذیب کو ہڑپہ کی تہذیب کا نام دیا گیا۔ ایک ہزار سے زائد مقامات سے ایسے آثار دریافت ہوچکے ہیں جو اسی دور اور اسی تہذیب سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان میں سے نصف سے زائد بھارت میں، لگ بھگ ۴۰فیصد پاکستان میں، اور چند ایک افغانستان میں موجود ہیں۔ لیکن باقاعدہ کھدائی کے ذریعہ صرف ۹۶ مقامات سے دریافت ہونے والے آثار کی ابتک جانچ کی گئی ہے۔ ہڑپہ ، موہنجو داڑو، ڈھولویرہ، کالیبنگن اور لوتھل اس سلسلہ کے سب سے بڑے اور اہم ترین مراکز ہیں۔
ساہیوال شہر سے ۱۵ میل جانبِ غرب ہڑپہ نامی قصبہ ہے جو کم و بیش پانچ ہزار سال سے بعض اوقات کے علاوہ مسلسل آباد چلا آرہا ہے۔ ۳۳۰۰ق م میں یہاں کاشتکاروں کے ایک گروہ نے ایک گاوں آباد کیا جو ترقی کرتے کرتے ۲۵۰۰ ق م تک اپنے زمانے کےعظیم ترین تجارتی مرکز کی شکل اختیار کر گیا۔اور اس اعزاز کو سات صدیوں تک برقرار رکھا۔ (وجوہات پر روشنی از ماہرین)۱۸۲۶ میں ایک پرطانوی سپاہی اور مہم جو، Charles Masson نے دنیا کو ہڑپہ کے آثار سے پہلی بار متعارف کروایا۔ لیکن اسکی اہمیت مذید کئی دہائیوں تک چھپی رہی۔ اور یہاں سے ملنے والی ہزاروں سال پرانی لاکھوں اینٹوں کو ریلوے کی تعمیرات میں بے دریغ استعمال کیا جاتا رہا اور یوں اس عظیم شہر کی بہت سی عمارات کے مطالعے سے آنے والی نسلیں محروم ہوگئیں۔
۱۹۲۰ اور ۳۰ کی دہائیوں میں ہڑپہ کی پہلی بار کھدائی کی گئی جسکے نتیجہ میں ایک عظیم شہر کے آثار برآمد ہوئے جو باقاعدہ منصوبہ بندی کے مطابق تعمیر کیا گیا تھا۔ اس شہر میں کشادہ سڑکیں، پکی مٹی کی بنائی ہوئی یکساں معیار کی اینٹوں سے بنے گھر، نقاصی آب کیلئے ڈھکی ہوئی نالیاں، اور ہزاروں نوادرات دریافت ہوئے جو دنیا بھر کے عجائب گھروں کی زینت بنے ہوئے ہیں۔ (ٹاون پلاننگ پر تبصرہ) یہاں سے ملنے والے نوادرات مہروں، اوزاروں ، مٹی کے بنے کھلونوں، قیمتی پتھر اور سیپ سے بنے زیورات اور منفرد قسم کے ظروف پر مشتمل ہیں۔ہڑپہ سمیت وادی سندھ کی تہذیب سے تعلق رکھنے والے شہروں کے آثار سے دریافت ہونے والی مہریں خاص اہمیت کی حامل ہیں۔ ان مہروں پر ہاتھی، بیل، شیر، گینڈے، یک سینگھے اور انسانی شبیہ کیساتھ ساتھ کچھ علامات بھی کندہ کی گئی ہیں جنکا سمجھنا تا حال ایک معمہ ہے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ یہ مہریں تجارتی اغراض کیلئے استعمال کی جاتی تھیں۔ (ماہر کی رائے)۔
ہڑپہ کے لوگ کونسی زبان بولتے تھے، اسکا حتمی نتیجہ نہیں نکالا جاسکا۔ ماہرین کا خیال ہے کہ انکی زبان ہندوستان کی قدیم دراوڑی زبانوں کے خاندان سے تعلق رکھتی تھی، جو جنوبی ہندوستان اور بلوچستان کے بعض علاقوں میں آج بھی بولی جاتی ہیں۔ ہڑپائی رسم الخط ۴۰۰ سے زائد مختلف علامات پر مبنی ہے، جن میں سادہ لکیروں اور نقطوں کے علاوہ geometrical shapes اور بعض انسان اور جانوروں کی شبیہ کی مانند علامات شامل ہیں۔ یہ مختصر تحریریں اوسط پانچ علامات پر مبنی ہوتی ہیں۔ اب تک ملنے والی سب سے طویل تحریر ۱۴ علامات پر مبنی ہے۔ ان تحریرات کے مختصر ہونے ، کوئی بھی دو زبانی تحریر دریافت نہ ہونے اور اس رسم الخط کے مفقود ہوجانے کے سبب، اسے آج تک پڑھا نہیں جا سکا۔(ماہرین کی رائے)
۱۹۶۶ میں ہڑپہ کے مقام پر سائٹ میوزیم بنایا گیا۔ جہاں نوادرات کی نمائش کیساتھ ساتھ جدید لیب بھی سر گرمِ عمل ہے تاکہ برآمد شدہ نوادرات کو موقع پر ہی محفوظ کرلیا جائے۔(کیوریٹر کا بیان)برّ صغیر پاک و ہند میں ظروف سازی کی ابتداء ۸۰۰۰ سال قبل مہر گڑھ میں ہوئی۔ جہاں سب سے پہلے برتن ہاتھ سے خام صورت کے بنائے جاتے تھے۔ اسکے بعد تنکوں اور گھاس پھوس سے بنی ٹوکریوں کا سانچہ بنا کر مٹی کو اس میں ڈھال کر برتن بنائے جانے لگے۔ اور پھر پہیے کی مدد سے ظروف سازی کا عمل شروع ہوا جو کسی نہ کسی صورت میں ہزاروں سال سے آج بھی جاری ہے۔(clip)
ہڑپائی بستیوں سے ملنے والے برتن منفرد طرز کے ہیں۔ جنہوں نے اس تہذیب کے عروج و زوال کیساتھ ساتھ شکلیں تو بدلیں لیکن اپنی انفرادیت کو قائم رکھا۔ برتن بنانے کی تکنیک، ان پر بنے نقوش، پکوائی کا طریق، اور انکی ساخت نا صرف اس تہذیب کے زمانے کا تعین اور معاسرین سے روابط کی نوعیت کا پتہ دیتے ہیں بلکہ انکے رہن سہن، ذوق، معیشت، ضروریات اور روایات پر بھی روشنی ڈالتے ہیں۔
ہڑپہ کے عروج کے دور میں یہاں کی ظروف سازی بے مثال تھی۔ یہاں روز مرّہ گھریلو استعمال کیساتھ ساتھ اناج ذخیرہ کرنے، پر تکلف تقریبات ، مذہبی رسومات اور تجارتی مقاصد کیلئے استعمال ہونے والے برتن بنائے جاتے تھے۔ ہڑپائی ظروف میں سوراخ دار مرتبان، جام، تنگ پیندے والے بڑے مرتبان، سٹینڈ پر رکھے آرائشی تھال ، پیالے اور خوبصورت نقش و نگار سے مزین برتن دنیا بھر کے قدیم ظروف میں نمایاں ہیں۔
ظروف سازی سمیت مہر سازی، قیمتی پتھر اور سیپ کے زیورات اور مٹی کے بنے کھلونوں کی قدیم صنعت میں استعمال ہونے والی تیکنیک کو سمجھنے کیلئے ماہرینِ آثارِ قدیمہ کی نگرانی میں مقامی ہنر مند نوادرات کی نقلیں تیار کرتے ہیں۔ اس سے نا صرف مقامی ہنر مندون کیلئے روزگار کے مواقع پیدا ہورہے ہیں بلکہ ہڑپائی تہذیب کو دنیا میں متعارف کروانے اور قدیم فنون کو زندہ رکھنے میں مدد بھی مل رہی ہے۔ (ماہرین کا بیان)
ہڑپہ کی آباد کاری اگرچہ ۳۳۰۰ ق م میں ہوئی، تاہم ۲۶۰۰ ق م سے ۱۹۰۰ ق م کا زمانہ اسکے عروج کا دور ہے، جبکہ یہ شہر ایک عظیم فصیلدار تجارتی اور صنعتی مرکز تھا اور اپنی ہم عصر مصر اور مسوپوتامیہ کی بستیوں سے ترقی اور پھیلاو میں کہیں آگے۔ ملنے والے شواہد سے معلوم ہوتا ہے کہ ماوراء النہر اور شمالی افریقہ کی قدیم تہذیب طرح طرح کی برآمداد کیلئے وادی سندھ کی تہذیب کے مراکز پر انحصار کرتی تھیں۔
۸ لاکھ مربع میل پر پھیلی ہوئی وادئ سندھ کی تہذیب کی تمام بستیوں میں ایک ہی رسم الخظ رائج تھا، مہریں بھی یکساں تھیں، اینٹ اور اوزان کے وزن اور پیمائیشیں بھی بالکل یکساں۔ اور شہروں کی منصوبہ بندی کے بنیادی اصول بھی ہم آہنگ۔ اتنے وسیع خطّے پر پھیلی ہوئی یہ یکسانیت ایک انتہائی مربوط نظام ، اسکے مسلسل استحکام اور بیرونی حملوں سے لمبے عرصہ تک نجات کا پتہ دیتی ہیں۔ سوائے اسکے کےہ تمام بڑے ہڑپائی شہر فصیلدار تھے، انکی عسکری اور سیاسی طاقت کے کوئی نشان نہیں ملتے۔ نہ ہی کسی فوجی چھاونی اور جنگی ہتھیاروں کی کثرت کا کوئی سوراغ مل سکا ہے، نہ ہی جنگی مناظر اور حکومت کے جواز کیلئے کسی حکمران کی شبیہ کے استعمال کا پتہ ملتا ہے۔(ماہر کی رائے)
ہڑپہ کے قدیم باسی کون تھے۔ وہ کہاں سے آئے اور کہاں گئے۔ انکی مذہبی رسومات کیا تھیں اور کس نوعیت کا سیاسی اور عسکری نظام تھا؟ جب تک انکے رسم الخط کو پڑھا نہیں جا تا، یہ سوالات حتمی جواب کے منتظر رہینگے۔ لیکن پاکستان کے مختلف علاقوں کے قدیم قبائل کی بودوباش اور رسم و رواج دیکھ کر یہ محسوس ہوتا ہے کہ جدت کی آمیزش سے ممکنہ بچاو کے بعد بعض تبدیلیوں کو اپنا کر، ہڑپہ کے لوگ آج بھی ہم میں موجود ہیں۔