ہر سال جب گرمیوں کی وجہ سے دریائے ہنزہ کی پانی کی سطح بلند ہوتی ہے تو قدرت اللہ بیگ اپنے آبائی گاؤں ناصر آباد میں اس کے ساحل پر مٹر گشت کرتا ہے۔ وہ لکڑی کی تلاش میں ہوتا ہے جو یہ دریا اوپر جنگلات سے بہا کر اپنے ساتھ لے آتا ہے۔ پچاس سال کی عمر میں اب و ہ بڑی وضاحت کے ساتھ شتہوت، خوبانی اور بادام کی شاخوں میں فرق کر لیتا ہے اور اس میں سے سے وہ شہتوت کی شاخوں کو زیادہ پسند کرتا ہے ۔لیکن یہ تینوں ہی اس کے لئے مفید ہیں کیونکہ وہ ان سے اپنی رہائش گا ہ میں موسیقی کے آلات بناتا ہےقدرت اللہ خود بھی قدرتی طور پر اچھا موسیقار ہے اور اسنے خود ہی چھوٹی عمر میں چھاردہ سیکھا ۔ چھاردہ رباب (آلہ) کی مقامی قسم ہے کیونکہ وہ ان آلات کو خریدنے کی قیمت برداشت نہیں کر سکتا تھا اس لئے وہ دوسروں سے لے کر آلہ استعمال کرتا رہا یہانتک کہ ایک دن ایک فیملی کے فنکشن پر اس نے جب بجایا تو اس نے یہ سمجھا کہ شاید یہ آلہ اسے تحفۃً دیا جا رہا ہے لیکن جب اختتام پر اس سے واپس لیا گیا تو اس کو بہت افسوس ہوا اور اس نے عہد کر لیا کہ اب وہ کسی دوسرے آدمی کا چھاردہ استعمال نہیں کرے گا۔-خوبانی کے درخت سے حاصل کی گئی لکڑی سے اس نے چاہا کہ اس سے چھاردہ بنا لیا جائے لیکن ۱۹۶۰ ء کی دہائی میں بہت ہی کم کاریگر اس فن میں دلچسپی رکھتے تھے او ر اس وقت قدرت اللہ کے بھی علم میں نہیں تھا کہ اس لاعلمی کی وجہ کیا ہے۔
موسیقی کے یہ آلات دراصل ڈوم برادری سے تعلق رکھنے والے مہارت کار موسیقار ہی بنایا کرتے تھے۔ ایک زمانے میں کسی کی پیدائش یا شادی کے موقعے پر سب سے زیادہ پسند کئے جانے والے یہ آلات اب بیسویں صدی کی آمد کے سبب ان کی ضرورت مانند پڑتی گئی۔جبکہ برادی کا نظام اختتام ہونے کے سر پر تھا تو اس وقت کے قریب ہی پچھلی صدی کے نصف تک ان کی شہرت ختم ہوتی چلی جا رہی تھی۔ یہانتک کہ ۱۹۷۰ء کی دہائی میں بہت سے ڈوم برادی سے تعلق رکھنے والے احباب نے یہ پیشہ چھوڑ دیا تھا اور وہاں سے منتقل ہو گئے تھے کہ ان کا کوئی ناشائستہ لقب نہ رکھ دیا جائے۔
سو جب کم عمر قدرت اللہ کو اپنا چھاردہ بنانے کی ضرورت پیش آئی تو تب تک ہنزہ میں موسیقی کے آلات بنانے والوں کی حد درجہ کمی ہو چکی تھی۔ اس نے پھر خو د ہی اپنے بھائی کے کارخانے سے کچھ اوزار لئے اور ایک ماہ تک ان سے چھاردہ بنانے کی کوشش کرتا رہا۔ جب میں نے اس کی تاریں ڈالیں اور پہلی دفعہ بجایا تو اس کی آواز کئی دیگر آلات سے مجھے زیادہ بہتر محسوس ہوئی جن کو میں پہلے سب چکا تھا۔ اس نے کہا
تقریباً اگلے دس سال تک جبکہ اس کے ہم عمر بچگانہ کھیلوں میں مشغول تھے وہ سکول کے بعد آکر مختلف آلات بناتا رہا تاکہ اپنے پاس ان کا ذخیرہ کر سکے۔ تقریبا بیس سال تک پھر آرمی کی خاطر لڑنے چلا گیا جس وجہ سے اس کا کام رکا رہا۔ اس سے فارغ ہوتے ہی اس نے اپنے ہی گھر میں اکیلے اس کا م کا دوبارہ اجراء کر دیا۔
۱۹۸۰ء کے اخیر میں پھر موسیقی کی طرف ہنزہ کیے پڑھے لکھے نوجوانوں کا رجحان بڑھنا شروع ہو گیا۔گو ان کا تعلق ڈوم برادری سے نہیں تھا۔ یہ وہ وقت تھا جب لو کل موسیقی کے آلات ملنے مشکل تھے اور صرف انہی پرانے خاندانوں کے پاس موجود تھے جنہوں نے اس کو اپنا پیشہ بنایا وا تھا اور مہارت رکھنے وال ےموسیقار ان میں موجود تھے۔ پس ان کو حاصل کرنے کی غرض سے نوجوانوں نے نئی ٹیکنالوجی کو بروئے کار لاتے ہوئے اس میں جدید تبدیلیاں کی اور سٹین لیس سٹیل کوکنگ پاٹ کا استعمال تاروں والے آلات کے لئے اور اصل کے بجائے مصنوعی چمڑے کا استعمال ایسے آلات کے لئے کیا جن کو بجانے سے آواز نکلتی ہے۔
۱۹۹۰ء کی دہائی میں کریم آباد کی ایک ngo نے کئی ایسے فنون کو دوبارہ بحال کیا جو اس علاقے کی پیچان تھے۔ گو کہ اس میں مقامی باشندہں نے ان کو مکمل تعاون فراہم کیا اور ہر قسم کی تکنیکی مدد بھی فراہم کی لیکن روایتی آلات کی واپسی پھر بھی مکمل طور پر نہ ہو سکی۔ اس کی ایک وجہ ان روایتی آلات کو بنانے والوں کی عدم دلچسپی تھی۔ پھر بھی بعض نے مشینوں کی مدد سے ان کو بنانا شروع کیا حالانکہ ایک وقت میں یہ ہاتھ سے بنائے جاتے تھے۔ اسی لئے آج بھی جو انہیں استعمال کرتا ہے یہی کہتا ہے کہ ان آواز اور بنانے میں وہ بات اور صفائی نہیں جو قدیمی آلات میں ہوا کرتی تھی۔
کریم آباد سے کچھ نیچے، قدرت اللہ ، آرمی سے واپس آنے کے بعد اب پھر اپنے آلات وچھریاں لے کر اپنے کام میں مشغول ہو گیا ہے۔ بڑی دقت اٹھا کر صحیح قسم کی لکڑی تلاش کرکے وہ آڑے اور دیگر آلات کی مدد سے اس کو اپنی من پسند شکل دیتا ہے۔ اس کے موٹے مضبوط ہاتھوں کو دیکھ کر اندازہ ہو تا کہ ان پرانے آلات سے یہ کام سر انجام دینا آسان کام نہیں۔ قدرت اللہ کا کہنا ہے کہ لکڑی کو بیچ میں سے خالی کرنا کہ وہ ایک ساؤنڈ بکس بن سکے یہ ایک نہایت کٹھن کام ہے۔ اور اس کی وجہ یہی ہے کہ اس کی صحیح پیمائش ہو گی اور مناسبت ہوگی تو تب ہی یہ آلہ صحیح آواز پیدا کر سکے گا۔
قدرت اللہ کو اس فن کا ماہر مانا جاتا ہے۔ وہ پشاوری رباب سے لے کر چترالی ستار تک نیز زنگینی و چھاردہ جس کا اسے بہت شوق تھا، سب بناسکتا ہے۔ اس نے بتایا کہ وہ ایک وقت میں سرنائی بھی بنا سکتا تھا لیکن اب اس کے لئے یہ مشکل ہے کیونکہ اس کے لئے ہاتھ سے استعمال کی جانے والی ایک ڈرل کو مخصوص انداز میں چلانا ہوتا ہے جو اس کے لئے اب مشکل ہے۔ گو اب بجلی سے چلنے والی مشینیں سرنائی آرام سے بنا سکتی ہیں تاکہ تجارتی ضرورت کو پورا کیا جا سکے لیکن اس کو علم ہے کہ جہاں وہ رہتا ہے وہاں یہ بھی ناممکن ہے کیونکہ اس کے علاقے میں بجلی کی فراہمی میں کمی ہے۔
جو لوگ قدرت اللہ سے آلات لے کر جاتے ہیں وہ اس کو اس فن کا ماہر تسلیم کرتے ہیں۔ اب صرف ایک چیز ہی اس کے مقابلے میں رہ گئی ہے اور وہ اس کی بڑھتی ہوئی عمر ہے۔ وہ نوے سال کا ہو چکا ہے اور اب اتنا کمزور ہو چکا ہے کہ اس کے لئے کام کرنا مشکل ہے یا کسی کو سکھانا بھی محال ہےبشرطیکہ کوئی اس فن کو سیکھنا بھی چاہے ۔ گو قدرت اللہ کو دیکھ کر لگتا ہے کہ ابھی بھی اس میں کئی سال کام کرنے کی ہمت باقی ہے۔ اور جب وہ کئی گھنٹے کام میں مصروف رہتا ہے تو صرف اپنے بھتیجے کو ہی یہ فن آگے سکھا سکا ہے۔ اور کوئی سیکھنے والا نہیں ہے۔
اور ہوگا بھی کیوں؟ ایک روایتی چھاردہ بنانے میں دس دن لگتے ہیں اور ان تمام دنوں میں مسلسل دس سے بارہ گھنٹے کام کرنا ہوتا ہے تا اس لکڑی سے اس آلے کو بنایا جس کے۔ اور اس کے بدلے میں اس کی قیمت صرف دس ہزار روپے ہے جو کہ ان چھالوں کے ساتھ بھی انصاف نہیں کرتی جو اس کا ساؤنڈ بکس بناتے وقت اس کے ہاتھوں میں پڑ جاتے ہیں۔ یہ تو دور کی بات ہے کہ وہ اس کے ذریعے اپنی اہل و عیال کا پیٹ پال سکتا ہے۔ اس کے لئے تو بس یہ ایک شوق ہے اور موسیقی سے لگاؤ کی ایک علامت ہے۔ اس نے مسکراتے ہوئے اس بات کا اقرار کیا کہ بعض دفعہ وہ جلدی میں کسی ایسے گاہک کے لئے جو آلات میں خاص دلچسپی نہ رکھتا ہو تیزی سے کام کر دیتا ہے اور ایک درمیانہ سے میعار کا آلہ تیار کر دیتا ہے ۔ گو ایسا شاذ ہوتا ہے۔
قدرت اللہ اب اپنی عمر کے آخری سالوں میں داخل ہو رہا ہے اور وہ سوچتا ہے کہ پتہ نہیں اس کا بھتیجا اس کام کو اس کے بعد جاری بھی رکھے گا یا نہیں۔ یہ تو اس کے شوق پر ہی دلالت کر ے گا: اگر وہ اچھی موسیقی کا شائق ہو گا تو خود ہی آلات تیار کرلے گا۔ اور اگر اسے دلچسپی نہ رہی تو پھر یہ فن بھی غائب ہو جائے گا۔ تب ہنزہ کے باشندے اپنی قدیم روایت سے ہٹ کر باہر سے منگوائے گئے آلات پر ہی موسیقی بجایا کریں گے۔
The Last Rubab Maker of Hunza || Rubab Making Documentation || Gilgit Baltistan