گلگت شہر سے تقریبا 100 کلومیٹر کے فاصلہ پر موجود ایک حسین وادی جسے وادیٔ ھنزہ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اسلام آباد سے تقریبا 700 کلومیٹر کی مسافت پر شاہراہ قراقرم پر موجود یہ وادی دنیا بھر کے سیاحوں کو اپنی طرف کھینچتی ہے۔ اس علاقہ کا کل رقبہ تقریباً 7900مربع کلومیٹر ہے۔ جو کہ گلگت بلتستان کا ایک ضلع ہے۔ اردو کے علاوہ یہاں کی لوکل زبان ’’بروشکی ‘‘ہے۔ وادیٔ ھنزہ کے باشندے یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ سکندر اعظم کے لشکر میں شامل یونانی فوجیوں کی اولادیں ہیں
سیاحتی نقطہ نگاہ سے ھنزہ کا سب سے مشہور علاقہ کریمہ آباد ہے۔ جس کے اردگرد اونچی چوٹیاں ہیں۔ جن میں راکاپوشی، دیران پیک ،گولڈن پیک،التر پیک اور لیڈی فنگر قابل ذکر ہیں۔ کریمہ آباد کے قریب ہی ایک قدیم قصبہ موجود ہے۔ جو’’ التت‘‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ یہ ھنزہ کا سب سے قدیم قصبہ ہے۔ یہاں پر موجود قلعہ التت ایک نمایاں تاریخی حیثیت رکھتا ہے۔ التت کے لوگوں کے متعلق یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ان کا تعلق 47عیسوی میں سلطنت فارس کے ترقی پذیر اور زراعت سے وابستہ ترک قبیلے ہن سے ہے۔
التت قلعے کی اگر بات کی جائے تو یہ عظیم قلعہ ھنزہ کے میروں نے تیار کروایا ہے۔ گیارہ سو سال پورانا یہ قلعہہ آج بھی اپنی اصلی حالت میں قائم و دائم ہے۔ قلعہ التت اور بالخصوص اس کی چھت پر موجودہے۔
یہ قلعہ نہ صرف بیرونی حملوں کے نتیجہ میں ثابت قدم رہا بلکہ قدرتی آفات مثلاً زلزلوں سے بھی اسے کچھ نقصان نہ پہنچا جس سے اس کی بہترین فن تعمیر کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
یہ خوبصورت قلعہ دریا ھنزہ سے تقریباً ایک ہزار فٹ کی بلندی پر بنایا گیا ہےاور اس پر موجود واحد برج جو شکاری برج کہلاتا ہے خصوصی طورپر پورے علاقہ پر نظر رکھنے کے لئے بنایا گیا ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ نگرانی کے ساتھ ساتھ اس برج سے سزائے موت پانے والے قیدیوں کو نیچے دریا کی طرف پھینک دیا جاتا تھا۔
اپنی تعمیر کے چار سو سال بعد یہ قلعہ اس وقت تنازع کا شکار ہوگیا جب ھنزہ کے شاہی خاندان کے دو بھائیوں کے درمیان اختلافات نے جنم لینا شروع کر دیااور بالآکر 1540ء میں کچھ فاصلہ پر ایک نیا قلعہ تعمیر کر لیا گیا جسے آج ہم قلعہ بلتت کے نام سے جانتے ہیں۔ بعد میں قلعہ بلتت ہی شاہی خاندان کا دارالخلافہ بھی بن گیا۔
قیام پاکستان کے بعد بھی ھنزہ ایک شاہی ریاست کےطور پر جانا جاتا تھا۔ 1972ء میں اس علاقہ کے شاہی ریاستی اختیارات واپس لےلئے گئے اور التت قلعہ آغا خان فاؤنڈیشن کو بطور تحفہ دے دیا گیا۔ اس قلعہ کی از سر نو تزین و آرائش کا کام شروع ہوا اور 2007ء سے یہ قلعہ ایک سیاحتی عجائب گھر کے طور پر کام کر رہا ہے۔ ہر سال ہزاروں سیاح اس قلعہ کو دیکھ کر اس قلعہ کی تاریخ سے آگاہ ہوتے ہیں۔ قلعہ کے اندر شاہی خاندان کے استعمال شدہ برتن ہوں یا دروازوں ، کھڑکیوں پر خوبصورت لکڑی کا کام ہو یہ قلعہ ہر لحاظ سے انسان کا دل چھو لیتا ہے۔