سندھ کی شاندار تہذیب کے رنگ کراچی سے کشمور تک ہر جگہ بکھرے نظر آتے ہیں۔کراچی سے تقریبا 27کلومیٹر کے فاصلے پرایک شہر خموشاں موجود ہے جسے’’چوکنڈی قبرستان‘‘کا نام دیا جاتا ہے۔لفظ چوکنڈی کے متعلق مختلف آراء موجود ہیں مگر عمومی خیال یہی کہا جاتا ہے کہ اس کا مطلب 4کونوں کے ہیں جو یہاں پر موجود 4کونوں والی قبروں کی مناسبت سے ہے۔اس قبرستان کی عظیم الشان قبریں جو کھیو قبائل سے منسوب کی جاتتی ہیں مگر بلوچ قبائل کی قبریں بھی یہاں دیکھنے کو ملتی ہی-ٹھٹھہ کے مشہور مکلی قبرستان سے تواکثر لوگ واقف ہیں مگر چوکنڈی قبرستان کا علم عموما کم لوگوں کو ہے۔اس قبرستان میں15سے18ویں صدی کی قبریں موجود ہیں،مستطیل نما یہ قبریں جن کی چوڑائی تقریبا اڑھائی فٹ،لمبائی 5فٹ اور اونچائی تقریبا 4سے14فٹ تک ہے جو ہر دیکھنے والے کو حیران کر دیتی ہیں
ان قبروں کو تیار کرنے کے لئے ٹھٹھہ کے قریب واقع جنگ شاہی کا زردی نما پتھر استعمال کیا گیا۔جسے سنگ مرمر کی طرح کسی اضافی رنگ و روغن کی ضرورت نہیں ہوتی۔اور یہی وجہ ہے یہ صدیوں سے آج بھی اپنی اصل حالت میں موجود ہیںاس قبرستان کی ایک اور خاص بات یہ ہے کہ یہاں خواتین اور مرد کی قبروں کو الگ الگ رکھا گیا ہے۔قبروں پر مرنے والوں کے نام تو درج نہیں مگر ان پر بنے نقوش سے اس بات کا علم ہو جاتا ہے کہ یہ قبر مرد کی ہے یا عورت کی۔
مردوں کی قبریں بالعموم گھوڑسوار سورماؤں،ہتھیاروں اور اسلحہ سے منقش ہیں،مگر چند قبروں پر تاج بھی بنا ہوا ہے جو اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ یہ کسی عظیم رتبے والے مرد کی قبر ہے۔جبکہ عورتوں کی قبروں پر واضح طور پر زیورات جیسے ہار،پازیب اور کانوں کے جھمکے وغیرہ کندہ کئے گئے ہیں۔ان تمام قبروں کو دیکھ کر انسان یہ سوچنے پر مجبور ضرور ہو جاتا ہے کہ اس دور میں جب جدید آلات موجود نہیں تھے تب بھی انسان نے کس طرح یہ نقش و نگاربنا ڈالے۔
اس قسم کی قبریں چوکنڈی کے علاوہ ملیر،میرپورساکرو،مکلی ٹھٹھہ اور سہون شریف وغیرہ میں بھی پائی جاتی ہیں۔
یہ قبریں اس دور کی فن تعمیرات کا اعلیٰ نمونہ پیش کرتی ہیں،مگر ان کی مناسب دیکھ بھال اور مرمت بے حد ضروری ہے تاکہ یہ تاریخی مقامات محفوظ رہ سکیں۔