جنوب کی جانب 50منٹ کی دوری پر دلکش قدرتی نظاروں سے بھرپور اور بل کھاتی مگر پختہ سڑک موجود ہے جو پلانڈری کو بارُل سے ملاتی ہے۔ بارُل میں بذاتِ خود تو دیکھنے لئے کچھ خاص نہیں لیکن جنوب کی جانب کچھ گھروں سے 20منٹ کی دوری پر ایک چھوٹا سا اداس اور فراموش قلعہ قدرے اونچی جگہ پر واقع ہے اور اسکا نام ایک گاؤں سے ماخوذ ہے۔
اسکی شکل ایک بند مٹھی کی مانند ہے جس کا انگوٹھا ہموار اور ایک طرف کو نکلا ہوا ہو۔ یہ واقعی چھوٹا ساہےکیونکہ اسکا رقبہ 40سے50مربع میٹر سے زیادہ نہ ہو گا۔ ہاتھ کی مٹھی اسکے حدود اربعہ جبکہ انگوٹھا اسکے داخلی گزرگاہ کو ظاہر کرتی ہے۔ اسکے کونوں پر موجود مینارچوں(برج)کے آٹھ پہلو ہیں اور انکو دیکھتے ہی مجھے مظفر آباد، رام کوٹ ، بھاگسر(بھمبر کے نزدیک) اور منگلا کے قلعوں کی یاد تازہ ہو گئی۔معلوم ہوتا ہے کہ بارل اور یہ تمام ایک ہی نقشہ کے مطابق بنائے گئےہیں۔
یہ نقشہ 15ویں صدی کے آخر سے لیا گیا لگتا ہے۔ اس غیر یقینی کے زمانہ میں وحشی اور پر اسرار ’’چاک قوم‘‘دنیا کے پردہ پر نمودار ہوئی، گویا کہ کسی دوسری دنیا سے آئے ہوں۔ کہاجاتا ہے کہ یہ خونخوار جنگجو، آج جسے ہم گلگت بلتستان کہتے ہیں ، وہاں سے آئے تھے۔ انہوں نے قابل اور بوڑھے زین العابدین کو شکست دے کر اسکی جگہ لی اور اپنی حکومت قائم کی، اور تقریباً ایک صدی تک کشمیر انکے ماتحت رہا۔ آخر کار1580ء میں اکبر نےنہایت مشکل سے کشمیر کی جان ان سے چھڑائی۔ یہ معرکہ اس کے تیسرے حملہ میں ہی ہو پایا کہ اسکی بے شمار فوج ’’چاکوں‘‘ کو شکست دے پائی۔
جس طرح پراسرار طور پر یہ ’’چاک‘‘ ظاہر ہوئے تھے ، اسی طرح یہ غائب ہو گئے۔ آج یہ شمالی پنجاب اور کشمیر میں کہیں کہیں نظر آتے ہیں۔
ہمارا خیال ہے کہ مظفر آباد کا قلعہ انہی ’’چاکوں‘‘ نے ہی تعمیر کیا تھا۔ رام کوٹ اور منگلا، دونوں جو منگلا ڈیم کے اوپر کے علاقہ پر واقع ہیں، اسی طرح بھاگسر بھی،جو 16ویں صدی کے وسط میں تعمیر کئے گئے ، چاکوں کے بنائے ہوئے طرز تعمیر کی ہی پیروی کرتے نظر آتے ہیں۔ کسی وجہ سے ، یہ نقشہ کشمیر میں بہت اپنا یا گیا۔
بارل میں میری دوست، نادیہ اکرم ، جو پہلے بھی یہاں آچکی تھی، ہمیں اس قلعہ کے مغربی داخلی دروازہ سے اندر لے گئی۔ ایسا لگتا تھا کہ اسے ، جب ڈوگروں نے 19ویں صدی میں کشمیر کو فتح کیا، دوبارہ بنا یا گیاہے ۔انہوں نے داخلی راستے میں ایک خوبصورتی سے مزین محراب بھی بنایا ۔ بد قسمتی سے اس محراب کو سہارا دینے والی لکڑی کو بے دردی سے لوٹا گیا اور دروازہ کو اس کی بنیادوں سے اکھیڑ دیا گیا ۔ داخلی راستے کے دونوں اطراف میں دیوار میں دو مربع سوراخ موجود ہیں جہاں بھاری بھرکم شہتیر ڈالے گئے تھے تاکہ وہ لکڑی کے دروازے کو مزید مضبوط کر سکیں۔
داخلی راستہ کسی زمانہ میں دو منزلہ تھا۔ ہم وہ جگہ اکھڑی ہوئی دیکھ سکتے تھے جہاں شہتیر چھت کو سہارا دینے کے لئے گاڑے گئے تھے ۔ یہ لازماً تقسیم کے بعد ہوا ہو گاجب یہ علاقہ ہر کسی کی پہنچ میں ہو گیاکیونکہ میں اس قسم کی لوٹ مار ملک کے دوسرے علاقوں میں بھی دیکھ چکا ہوں۔ نچلی منزل ، اور وہ جگہ جو کبھی دوسری منزل ہوا کرتی تھی، میں بے شمار سوراخ ہیں۔ داخلی دروازہ کے اوپردوسری منزل پر، ایک مستطیل (rectangular)درز(سوراخ) موجود ہے جہاں سے وہ ابلتا ہوا تیل یا پانی دروازہ پر حملہ آور ہونے والوں پر ڈالتے تھے۔ مغلوں کے برخلاف، جو ایک خاص قسم کی چھپی ہوئی درز کا استعمال کرتے تھے، ’’چاکوں‘‘ نے ایک سادہ سوراخ سے ہی اس مقصد کو پورا کر لیا۔
ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ دونوں منزلوں میں آتشدان موجود ہیں۔ اسکا مطلب یہ ہے کہ یہ مینارچہ محض دفاع کے لئے ہی نہیں بلکہ رہائش کے طور پر بھی استعمال ہوتا تھا۔ نچلی منزل فوجی بیرک کے طور پر جبکہ دوسری منزل قلعہ کے داروغہ کے لئے مختص ہو تا ہوگا۔
فصیل کا اندرونہ لاپرواہی اور کھنڈر کا منظر پیش کر رہا تھا۔ تین کونوں میں موجود مینارچوں پر بیل بوٹوں نے بسیرا کر رکھا ہے اور سانپوں سے ڈرتے ہوئے میں نےان میں داخل ہونے سے اجتناب کیا۔ اگرچہ میں قلعے کے کنارہ تک سیڑھیوں کے ذریعہ چڑھ سکتا تھا ، تاہم مَیں دیوار کے گرد نہیں جا سکتاتھاکیونکہ اس کا تنگ نکلا ہوا حصہ بالکل ٹوٹ پھوٹ چکا تھا۔
قلعہ کے تمام اطراف دیواروں میں دراڑیں پڑ چکی ہیں۔ شمال مغربی مینارچہ ایک بجلی کی کوند نما تریڑ سے پہچانا جا سکتا ہے ۔ یقیناً ہر دفعہ کی بارش اس تریڑ میں اضافہ کرتی ہوگی۔ اورکسی بھی دن ، جو زیادہ دور نہیں لگتا، یہ مینارچہ زمین بوس ہو جائے گا۔ میرے سرسری سے مطالعہ میں یہاں کوئی تحریر یا نقش و نگار برآمد نہیں ہوئی اور نہ ہی نادیہ مجھے اس قلعہ کے بارہ میں کوئی لوک کہانی بتا سکی۔ لگتا ہے کہ مقامی افراد بھی بارل کے قلعہ کے بارہ میں کوئی لوک کتھا نہیں رکھتے۔
جب ہم واپس جانے لگے تو یکدم نادیہ کو یاد آیا کہ اس نے سنا ہے کہ بارل ، کوٹلی کے قریب سہنسا کے اسی طرح کے قلعے سے بھی دکھائی دیتا ہے۔اور یہ کہ بارل کے محافظ رات کو آ گ جلا کر انہیں ’سب ٹھیک ہے‘کا اشارہ دیتے تھے۔ ہم پہاڑی کے کنارے تک گئے اور جنوب کی طرف ایک گہری ، جامنی رنگ کی وادی کو دیکھا جو لکڑیوں سے جلائی گئی آگ اور اکتوبر کے خشک کہرے کے سناٹے میں گم تھی۔ بارل کی کوٹلی سے نظر آنے کی بات ممکن ہے صحیح ہو ۔
اگر یہ کہا جائے کہ پلانڈری ،پونچھ اور راولپنڈی کے درمیان موجود سڑک پر واقع ہے تو بارل اس سے الگ تھلگ واقع ہے۔ درحقیقت، یہ لگتا ہے کہ بارل کا قلعہ کسی سڑک کی حفاظت
نہیں کرتا ۔ یہ ’’چاکوں‘‘ نے محض اس لئے بنایا ہو گا کہ کشمیر کے لوگوں کو بتا سکیں کہ انکی ہر جگہ نظر ہے۔ چاکوں کے جانے کے بعد مغلوں نے بھی اسے اسی مقصد کے لئے استعمال کیا ہو گا، لیکن انہوں نے اس پر کوئی نشان نہیں چھوڑا۔ ڈوگروں نے البتہ بنیادی داخلے راستے کو خوبصورت بنا کر اپنا نقش چھوڑا ہے ۔
اور پھر تقسیم ہو گئی۔ ہم نے 400سال پرانی لکڑی کو اس خوبصورت عمارت سے اکھیڑ ڈالا ، تاکہ ہم دنیا کو بتاسکیں کہ ہم اپنے تعمیر شدہ ورثہ کی کتنی قدر کرتے ہیں۔ اب ہم برال قلعہ کے ریزہ ریزہ ہونے کے منتظر ہیں۔