یوں تو خدا تعالیٰ کی بنائی گئی اس خوبصورت زمین کا ہر رنگ، ہر نعمت انمول ہے مگر قدرت نے سر زمین پاکستان کو جس حُسن سے مالامال کیا ہے وہ کم ہی ملکوں کو نصیب ہوا ہے۔پاکستان میں جہاں دنیا کی بلند و بالا پہاڑی سلسلے، دیوقامت گلیشئر ز، خوبصورت جھیلیں اور ریگستان موجود ہیں وہاں اس ملک میں متعدد تاریخی مقامات بھی بکھرے ہوئے نظر آتے ہیں۔آزاد کشمیر پاکستان کا وہ حسین ترین علاقہ ہے جس کو جنت نظیر بھی کہا جاتا ہے۔ میر پور آزاد کشمیر کے علاقے ڈڈھیال میں ایک تاریخی قلعہ رام کوٹ موجود ہے جو خوبصورتی اور تاریخی اعتبار سے اپنی مثال آپ ہے۔ منگلا جھیل میں اطراف سے پانی میں گھِرا یہ قلعہ سیاحوں کو اپنی طرف کھینچتا ہے۔اس قلعہ تک رسائی آج بھی آسان نہیں۔ ڈڈھیال کے مضافاتی علاقہ بٹھار سے کشتی کے ذریعہ ہی اس قلعہ کے قریب پہنچا جاسکتا ہے جس کے بعد پہاڑ کی عمودی چڑھائی چڑھ کر ہی اس قلعہ تک پہنچا جا سکتا ہے۔
قلعہ رام کوٹ جہلم اور پونچھ دریاؤں کے سنگم پر ایک پہاڑی کی چوٹی پر واقع ہے۔ تعجب کی بات یہ ہے کہ کشمیر میں دریائے جہلم کے کنارے جو قلعے تعمیر کئے گئے یعنی مظفر آباد کا لال قلعہ ، منگلا ڈیم کے نزدیک واقعہ قلعہ منگلا اور پھر رام کوٹ قلعہ ، ان میں سے کوئی قلعہ بھی تاریخ میں اپنی جگہ نہ بنا سکا۔ اور یہی وجہ ہے کہ آج تاریخ کی کتابوں میں ان کا ذکر نہ ہونے کے برابر ہے۔ برطانیہ کے ایک معروف نقشہ ساز John Arrowsmithنے 1841ء میں کشمیر کا ایک نقشہ بنایا جس میں رام کوٹ کا ذکر نہیں ملتا۔
مہاراجہ کشمیر رنبیر سنگھ کے ماہر ارضیات Frederick Drew،1875ء میں اپنی شائع ہونے والے کتابJummo & Kashmir Territoriesمیں قلعہ رام کو ٹ پو کچھ روشنی ڈالتے نظر آتے ہیں. ان کے مطابق یہ قلعہ 17ویں صدی کے آغاز میں Toglueنامی ایک گکھڑ سردار نے تعمیر کروایا۔ 19ویں صدی میں اس قلعہ پر کشمیر کے ڈوگروں کی حکومت رہی اور اس دوران اس قلعہ میں چند تبدیلیاں بھی کی گئیں۔ اس قلعہ کے حوالے سے بہت سے کہانیاں مشہور ہیں۔ بعض کے نزدیک یہ قلعہ قریباً 900سال قدیم ہے جسے سلطان غیاث الدین نے تعمیر کرایا۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ یہ قلعہ ایک قدیم ’’شِو‘‘نامی ہندو مندر پر تعمیر کیا گیا تھا۔
اگرچہ قلعہ کا زیادہ تر حصہ تو کھنڈرات میں تبدیل ہو چکا ہے تاہم ابھی بھی یہ ماضی کی چند جھلکیاں پیش کرتا نظر آتا ہے۔ اس کا مرکزی دروازہ ایک خاص حکمت عملی کے تحت ڈھلوانی چٹان پر بنایا گیا ہے تاکہ کسی بھی بیرونی حملہ کی صورت میں دشمن بآسانی اندر داخل نہ ہو پائے۔دفاعی نقطہ نگاہ کو ذہن میں رکھتے ہوئے قلعہ میں ہر زاویے پر چوکیاں بنائی گئی ہیں۔ تاکہ دشمن پر بآسانی تیر اندازی کی جا سکے۔ قلعہ کی فصیلوں کے ساتھ ڈھلوانیں، توپوں کے کنگرے وغیرہ اس کی شان و شوکت میں اضافہ کرتے نظر آتے ہیں۔
قلعہ کے اندر داخل ہوتے ہی میدان میں 2بڑے تالاب نظر آتے ہیں جو اب خشک ہو چکے ہیں۔ ممکن ہے کہ اُس دور میں ان تالابوں کو بارش کا پانی جمع کرنے کے لئے استعمال کیاجاتا ہو- قلعہ کی ایک فصیل پر ایک پرانی توپ موجود ہے جو دراصل قلعہ کی نہیں بلکہ اس قلعہ کی مرمت کے دوران پاک فوج کی طرف سے یہاں رکھی گئی تھی۔
مرکزی دروازہ سے اگر بائیں جانب نظر دوڑائیں تو ایک مندر کے آثار ملتے ہیں جس میں مورتیاں رکھنے کے طاق دیکھے جا سکتے ہیں۔ رام کوٹ میں مندرکی موجودگی سے یہ قیاس بھی کیاجاتا ہے کہ شاید کبھی یہاں ہندو بڑی تعداد میں آباد تھے اس قلعہ کی ایک جغرافیائی اور تاریخی اہمیت یہ بھی ہے کہ سری نگر جانے کے لئے قدیم دور میں جو راستے استعمال ہوتے تھے ان میں سے ایک رام کوٹ سے ہو کر گزرتا تھا۔
اس دور میں تجارتی قافلے Salt Rangeسے ہوتے ہوئے پہلے نندنہ، پھر روہتاس سے ہوتے ہوئے رام کوٹ پہنچتے تھے۔ جس کے بعد یہ میرپور سے ہوتے ہوئے سری نگر کی طرف جاتے تھے.اس قلعہ کو اگر بلندی سے دیکھا جائے تو یوں معلوم ہوتا ہے جیسے پانی کو اس قلعہ کی حفاظت پر مامور کیا گیا ہے۔ قلعہ رام کوٹ جہاں اپنے خوبصورت محل وقوع کی بدولت ہماری توجہ اپنی طرف کھینچتا ہے، وہاں بزبان حال اس بات کا بھی متقاضی ہے کہ ماضی کے اس تاریخی ورثہ کی صحیح معنوں میں دیکھ بھال کی جائے۔ اس کی مرمت اور ضروری تزئین و آرائش کی جائے تاکہ آنے والی نسلیں تاریخ سے واقف رہ سکیں۔